صحیح بخاری حدیث نمبر : 7386
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن أبي عثمان، عن أبي موسى، قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فكنا إذا علونا كبرنا فقال " اربعوا على أنفسكم، فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا، تدعون سميعا بصيرا قريبا ". ثم أتى على وأنا أقول في نفسي لا حول ولا قوة إلا بالله. فقال لي " يا عبد الله بن قيس قل لا حول ولا قوة إلا بالله. فإنها كنز من كنوز الجنة ". أو قال ألا أدلك به.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے ابو عثمان نہدی نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور جب ہم بلندی پر چڑھتے تو ( زور سے چلا کر ) تکبیر کہتے ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو! اپنے اوپر رحم کھاؤ ! اللہ بہرا نہیں ہے اور نہ وہ کہیں دور ہے ۔ تو ایک بہت سننے ‘ بہت واقف کار ار قریب رہنے والی ذات کو بلاتے ہو ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ۔ میں اس وقت دل میں لا حول ولا قوۃ الا با للہ کہہ رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا عبد اللہ بن قیس ! لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہا کرو کہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ۔ یا آپ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتادوں۔
تشریح : وہ یہی لا حول ولا قوۃ الا با للہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ غائب نہیں ہے ۔ اس کا یہ معنی ہے کہ وہ ہر جگہ ہر چیز کو ہر آواز کو دیکھ اور سن رہا ہے آواز کیا چیز ہے وہ تو دلوں تک کی بات جانتا ہے ۔ یہ جو کہا کرتے ہیں اللہ ہر جگہ حاضر وناظر ہے اس کا بھی یہی معنی ہے کہ کوئی چیز اس کا علم اور سمع اور بصرہ سے پوشیدہ نہیں ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے جیسے جہمیہ ملا عنہ سمجھتے ہے کہ اللہ اپنی ذات قدسی صفات سے ہر مکان یا ہر جگہ میں موجود ہے ‘ذات مقدس تو اس کی بالائے عرش ہے مگر اس کا علم اور سمع اور بصر ہر جگہ ہے ‘ حضور کا یہی معنی ہے ۔ خود امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں اللہ آسمان پر ہے زمین میں نہیں ہے یعنی اس کی ذات مقدس بالائے آسمان اپنے عرش پر ہے اور دین کے کل اماموں کا یہی مذہب ہے جیسے اوپر بیان ہو چکا ہے ۔ یہ کلمہ لاحول ولا قوۃ الا با للہ عجب پر اثر کلمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس کلمے میں یہ اثر رکھا ہے کہ جو کوئی اس کو ہمیشہ پڑھا کرے وہ ہر شر سے محفوظ رہتا ہے ۔
ہمارے پیرو مرشد حضرت مجدد کا ختم روزانہ یہی تھاکہ سو سو بار اول وآخر درود شریف پڑھتے اور پانچ سو مرتبہ لا حول ولا قوۃ الا با للہ اور دنیا اور آخرت کے تمام مہمات اور مقاصد حاصل ہونے کے لیے یہ بارہ کلمے میں نے تجربہ کئے ہیں جو کوئی ان کو ہر وقت جب فرصت ہو بلا قید عدد پڑھتا رہے ان شاءاللہ تعالیٰ اس کی کل مرادیں پوری ہوں گی ۔
” سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔
استغفر اللہ لا الہ الا اللہ لا حول ولا قوۃ الا با للہ یا رافع یا معزیاغنی یا حی یا قیوم برحمتک استغیث یا ارحم الراحمین
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین حسبنا اللہ ونعم والوکیل نعم المولیٰ ونعم النصیر۔
ایسا ہوا کہ ایک ملحد بے دین شخص اہل حدیث اور اہل علم کا بڑا دشمن تھا اور اس قدر طاقت ور ہو گیا تھا کہ اس کا کوئی مقابلہ نہ کرسکتا تھا ۔ ہر شخص کو خصوصاً دین داروں کو اس کے شر سے اپنی عزت وآبرو سنبھا لنا دشوار ہو گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہی کلموں کے طفیل سے اس کا قلع قمع کردیا اور اپنے بندوں کو راحت دی ۔ جب اس کے فی النار والسقر ہونے کی خبر آئی تو دفعتاً یہ مادہ تاریخ دل میں گزرا۔
چونکہ بو جہل رفت ازدنیا
گشتہ تاریخ او بما ذمہ
رائے بیروں کن وبیگر حدیث
مات فرعون ھذہ الامہ۔
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن أبي عثمان، عن أبي موسى، قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فكنا إذا علونا كبرنا فقال " اربعوا على أنفسكم، فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا، تدعون سميعا بصيرا قريبا ". ثم أتى على وأنا أقول في نفسي لا حول ولا قوة إلا بالله. فقال لي " يا عبد الله بن قيس قل لا حول ولا قوة إلا بالله. فإنها كنز من كنوز الجنة ". أو قال ألا أدلك به.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے ابو عثمان نہدی نے اور ان سے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور جب ہم بلندی پر چڑھتے تو ( زور سے چلا کر ) تکبیر کہتے ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو! اپنے اوپر رحم کھاؤ ! اللہ بہرا نہیں ہے اور نہ وہ کہیں دور ہے ۔ تو ایک بہت سننے ‘ بہت واقف کار ار قریب رہنے والی ذات کو بلاتے ہو ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ۔ میں اس وقت دل میں لا حول ولا قوۃ الا با للہ کہہ رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا عبد اللہ بن قیس ! لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہا کرو کہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ۔ یا آپ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتادوں۔
تشریح : وہ یہی لا حول ولا قوۃ الا با للہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ غائب نہیں ہے ۔ اس کا یہ معنی ہے کہ وہ ہر جگہ ہر چیز کو ہر آواز کو دیکھ اور سن رہا ہے آواز کیا چیز ہے وہ تو دلوں تک کی بات جانتا ہے ۔ یہ جو کہا کرتے ہیں اللہ ہر جگہ حاضر وناظر ہے اس کا بھی یہی معنی ہے کہ کوئی چیز اس کا علم اور سمع اور بصرہ سے پوشیدہ نہیں ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے جیسے جہمیہ ملا عنہ سمجھتے ہے کہ اللہ اپنی ذات قدسی صفات سے ہر مکان یا ہر جگہ میں موجود ہے ‘ذات مقدس تو اس کی بالائے عرش ہے مگر اس کا علم اور سمع اور بصر ہر جگہ ہے ‘ حضور کا یہی معنی ہے ۔ خود امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں اللہ آسمان پر ہے زمین میں نہیں ہے یعنی اس کی ذات مقدس بالائے آسمان اپنے عرش پر ہے اور دین کے کل اماموں کا یہی مذہب ہے جیسے اوپر بیان ہو چکا ہے ۔ یہ کلمہ لاحول ولا قوۃ الا با للہ عجب پر اثر کلمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس کلمے میں یہ اثر رکھا ہے کہ جو کوئی اس کو ہمیشہ پڑھا کرے وہ ہر شر سے محفوظ رہتا ہے ۔
ہمارے پیرو مرشد حضرت مجدد کا ختم روزانہ یہی تھاکہ سو سو بار اول وآخر درود شریف پڑھتے اور پانچ سو مرتبہ لا حول ولا قوۃ الا با للہ اور دنیا اور آخرت کے تمام مہمات اور مقاصد حاصل ہونے کے لیے یہ بارہ کلمے میں نے تجربہ کئے ہیں جو کوئی ان کو ہر وقت جب فرصت ہو بلا قید عدد پڑھتا رہے ان شاءاللہ تعالیٰ اس کی کل مرادیں پوری ہوں گی ۔
” سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔
استغفر اللہ لا الہ الا اللہ لا حول ولا قوۃ الا با للہ یا رافع یا معزیاغنی یا حی یا قیوم برحمتک استغیث یا ارحم الراحمین
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین حسبنا اللہ ونعم والوکیل نعم المولیٰ ونعم النصیر۔
ایسا ہوا کہ ایک ملحد بے دین شخص اہل حدیث اور اہل علم کا بڑا دشمن تھا اور اس قدر طاقت ور ہو گیا تھا کہ اس کا کوئی مقابلہ نہ کرسکتا تھا ۔ ہر شخص کو خصوصاً دین داروں کو اس کے شر سے اپنی عزت وآبرو سنبھا لنا دشوار ہو گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہی کلموں کے طفیل سے اس کا قلع قمع کردیا اور اپنے بندوں کو راحت دی ۔ جب اس کے فی النار والسقر ہونے کی خبر آئی تو دفعتاً یہ مادہ تاریخ دل میں گزرا۔
چونکہ بو جہل رفت ازدنیا
گشتہ تاریخ او بما ذمہ
رائے بیروں کن وبیگر حدیث
مات فرعون ھذہ الامہ۔
No comments:
Post a Comment